Monday, May 18, 2020

Sanat e Istara صنعتِ استعارہ


استعارہ 

( استعارہ لفظ مستعار سے بنا ہے جس کے معنی ہیں "ادھار لینا"  ۔ )
تعریف  :-  شعر میں ایسے الفاظ کا آنا جو اپنے معنی میں استعمال نہ ہو کر دوسرے یا مجازی معنی میں استعمال ہوں۔جیسے بہادر کو شیر کہہ دیا ، خوبصورت کو چاند  کہہ دیا۔
۱مثال 
؂    یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ   کا   سفر 
      سر پر   خیالِ یار   کی چادر   ہی لے    چلیں          

اس شعر میں  کڑی دھوپ اپنے اصل معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ  دوسرے (مجازی) معنی میں استعمال ہوا ہے ۔یہاں کڑی دھوپ کا مطلب ہے  زندگی میں آنے والی مشکلات۔۔ 

مثال۲۔
  ؂کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے 
         رستم  کا جگر   زیرِ کفن  کانپ رہا ہے         

اس شعر  میں شیر سے مراد بہادر ہے یعنی حضرت علیؑ کو کہا گیا ہے۔

مثال۳۔
؀    سب ٹھاٹ پڑا  رہ جاوے گا ، جب لاد چلے گا بنجارا
اس مصرعہ میں بنجارا موت کو کہا گیا ہے ۔



*******

No comments:

Post a Comment